کینبرا | (روزنامہ کشمیر پیج)
آسٹریلیا کے سابق وزیرِاعظم مالکم ٹرنبل کیخلاف انکی اپنی جماعت کے اراکین نے ہی عدمِ اعتماد پیش کردیا. وزیرِ خزانہ سکاٹ ماریسن آسٹریلیا کے نئے وزیرِ اعظم منتخب ہوگئے.
گزشتہ چند مہینوں سے سابق وزیرِاعظم ٹرنبل پر انکی جماعت کی جانب سے مستعفی ہونے کا دباؤ ڈالا جارہا تھا. لیکن ٹرنبل اس دباؤ کو مسترد کر رہے تھے بلکہ اپنی سپورٹ میں اپنے حامیوں کو اکٹھا کر رہے تھے. ٹرنبل کیخلاف محاذ آرائی کئی مہینوں سے جاری تھی لیکن چار بڑی وجوہات ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنیں جن میں ان کی حکومت کی کارکردگی بارے کیئے جانے والا تیسواں عوامی سروے ان کی حکومت کیخلاف آنا، قوینزلینڈ میں ضمنی انتخابات کا ہارنا، قانون میں کاربن اخراج کا اہداف کرنے پر ساتھی لبرل سیاستدانوں کی طرف سے بغاوت کرنا سرِفہرست ہیں.
مالکم ٹرنبل کے خلاف ان کی لبرل کنزرویٹِو پارٹی نے انہی کی درخواست پر ووٹنگ گزشتہ منگل کو کرائی جس میں 48 ووٹ ان کے حق میں اور 35 ووٹ ان کے خلاف ڈالے گئے. البتہ ممبران لبرل کنزرویٹِو پارٹی نے بدھ کی رات کو سیاسی قیادت کے بحران پر فیصلہ کرنے کے لیئے میٹنگ کا انعقاد کیا. سابق وزیرِ داخلہ پیٹر ڈٹن، جنہوں نے سابق وزیرِاعظم مالکم ٹرنبل کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا آغاز کیا، انہوں نے ایک آسٹریلوی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر انکی جماعت کے لوگ ان کا ساتھ دیں گے تو وہ دوبارہ ٹرنبل کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا آغاز کریں گے. ان کا کہنا تھا اگر کسی کو علم ہو کہ وہ ہار جائے گا تو اسے پولنگ میں نہیں جانا چاہیئے.

سابق وزیرِ اعظم مالکم ٹرنبل کو سابق وزیرِ داخلہ پیٹر ڈٹن اور ان کے حمیوں کی طرف سے آج کے دن دوبارہ پارٹی میٹنگ بلا کر ووٹنگ کرانے کے لیئے مجبور کیا. جس کو بلانے کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ وہ وزیرِاعظم کے عہدے کے لیئے کھڑے نہیں ہونگے جس کے بعد پارٹی میں وزیرِاعظم کی کرسی کے لیئے سخت مقابلہ صرف سابق وزیرِ داخلہ پیٹر ڈٹن اور سابق وزیر خزانہ سکاٹ ماریسن کے درمیان رہ گیا. انتہائی سخت مقابلے کے بعد سکاٹ ماریسن 45 ووٹ لے کر آسٹریلیا کے نئے وزیرِاعظم منتخب ہوگئے جنکہ انکے مخالف امیدوار صرف 40 ووٹ لے سکے. سابق وزیرِاعظم مالکم ٹرنبل نے پارٹی کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان بھی کر دیا.انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنی پارلیمنٹ کی سیٹ سے بھی مستعفی ہوجائیں گے. اپنے آخری پیغام میں انہوں نے عوام کا شکریہ ادا کیا.
آسٹریلیا نے گزشتہ دس سالوں میں چھ وزیرِاعظم تبدیل کیئے ہیں اور آئندہ آنے والے سالوں میں اور بھی وزراءاعظم کو تبدیل کرنے کا امکان نظر آتا ہے کیونکہ آسٹریلین قومی اسمبلی نے یہ ایک پریسیڈینٹ بنا لیا ہے جسے وہ بار بار آزما رہے ہیں. کیا یہ جمہوریت ہے یا ذاتی مفاد اس کا اندازہ آئندہ چند دنوں تک عوامی ردِعمل سے ہی لگایا جا سکتا ہے.