حکومت کو آزاد کشمیر میں مڈٹرم تبدیلی لانے سے اجتناب کرنا چاہیئے | سردار خالد ابراہیم خان

نیوزڈیسک | اسلام آباد

آزاد کشمیر کی سیاست کے بے باک رہنما اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر سردار خالد ابراہیم خان صاحب نے مسلئہ کشمیر پر پاکستانی حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کو بھارتی حکومت کی کمزوری قرار دیا ہے۔

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مسلئہ کشمیر پر مذاکرات کی صورت میں بھارتی حکومت خود کو مضبوط پوزیشن میں نہیں دیکھتی۔ خاص طور پر برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی حکومت اور بھارتی فوج کافی پر دباؤ ہے۔ جسکی وجہ سے بھارت مذاکرات سے بار بار پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات پر قریقین ہمیشہ تب ہی راضی ہوتے ہیں جب انہیں اس بات کا یقین ہو کہ وہ کسی مضبوط پوزیشن پر ہیں اور انہیں مذاکرات میں برتری حاصل ہوگی۔

سردار خالد ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ بھارت ہمیشہ مسلئہ کشمیر کے ساتھ دہشتگردی پر بات کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس بار پاکستانی حکومت نے بھارتی مطالبے کو مانا اور مذاکرات شروع کرنے چاہے تو بھارت نے مذاکرات سے انکار کردیا۔ جس سے ایک بات عالمی برادری کے سامنے واضح ہوگئی ہے کہ بھارت مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کی حکمت عملی کو سراہا اور کہا کہ پاکستانی حکومت کی یہ حکمت عملی کافی حد تک کامیاب ہوچکی ہے اور بھارت کا اصلی چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی کی جنگوں پر گفتگو کرتے ہوئے سردار خالد ابراہیم نے کہا کہ 1971 کی جنگ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ ایک سازش تھی جو بھارت نے 1965 کی جنگ ہارنے کے بعد انٹرنیشنل پلیئرز کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف بنائی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 1971 میں جو صورتحال پاکستان کی مشرقی پاکستان میں تھی آج بھارت کی وہی صورتحال مقبوضہ کشمیر میں ہے۔ اس لیئے بھارت اب کبھی جنگ کا خطرہ مول نہیں لے گا۔

بھارتی آرمی چیف کی طرف سے پاکستان پر حملہ کرنے کے دھمکی آمیز بیان پر بات کرتے ہوئے سردار خالد ابراہیم خان نے کہا کہ اس سے پہلے بھی بھارت بہت دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ لیکن جب پاکستان نے ان دھمکیوں کا جواب دیا ہے تو بھارت کو ہم نے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس لیئے ایسے بیان صرف دھمکیوں کی حد تک ہی محدود ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی گرفت پر بات کرتے ہوئے سردار خالد ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیر میں عوامی طور پر اور فوجی لحاظ سے کمزور ہوچکا ہے۔ بھارت دو محاذوں پر لڑنے کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا۔ وہ پاکستانی فوج اور کشمیری عوام کا مقابلہ ایک ساتھ کبھی بھی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب بھارتی عوام میں بھی یہ رائے پائی جا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا فوجی حل نہیں بلکہ سیاسی حل نکالنا چاہیئے اور کشمیریوں کو ان کے حقوق دیئے جانے چاہیئے۔ یہ کشمیریوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ سردار خالد ابراہیم کا کہنا تھا کہ آنے والے وقت میں شاید بھارتی عوام اپنی آنے والی حکومت پر مسلئہ کشمیر کے حل کے لیئے زور ڈالے۔

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے بھارتی حکومت کے انکار کا تعلق براہ راست بھارت کی داخلی سیاست سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی پر کرپشن کے الزامات ہیں اور انکی حکومت عوام میں مقبول نہیں رہی ہے اس لیئے پاکستان مخالف بیانیہ اپنا کر وہ آنے والے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔

سردار خالد ابراہیم کا کہنا تھا کہ مسلئہ کشمیر اہمیت کے لحاظ سے حکومت پاکستان کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے۔ کافی عرصے سے اس مسلہ کو اہمیت نہیں دی جارہی اور باقی مسائل کو اس پر ترجیح دینے کا عمل نظر آراہا ہے۔ لیکن پاکستان کی نئی حکومت کو اس مسلہ کی اہمیت ساری دنیا کہ سامنے دوبارہ اجاگر کرنی پڑے گی۔

مقبوضہ کشمیر کے پشتینی قانون کو ختم کرنے کے حوالے سے سردار خالد ابراہیم خان نے کہا کہ آرٹیکل 35A یا 370 بھارت کے آئین کا حصہ ہیں وہ بھارتی قوانین ہیں۔ بھارتی قانون کشمیر پر نافذ العمل ہے ہی نہیں۔ کشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے جس پر کسی ملک کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1957 میں اقوام متحدہ نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ 370 کا اطلاق کشمیر میں نہیں کرسکتا۔ سردار خالد ابراہیم خان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت چاہے پشتینی قانون کو ختم کرتا ہے یا رہنے دیتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھارت کی سپریم کورٹ کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی آئین کا اطلاق نہیں ہوتا۔

آزاد کشمیر کی سیاست
آزاد کشمیر کی سیاست پر بات کرتے ہوئے سردار خالد ابراہیم خان نے کہا کہ آزاد کشمیر کی گزشتہ دس پندرہ سال کی سیاست میں یہی دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت آزاد کشمیر کے انتخابات میں کسی نا کسی حد تک مداخلت کرتی رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کو ایک چیز کا کریڈٹ دیں گے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد کشمیر کی اسمبلی میں کوئی مڈٹرم تبدیلی یا مداخلت نہیں کی تھی اور پاکستان کی نئی حکومت کو بھی ایسے کسی عمل سے اجتناب کرنا چاہیئے۔

سردار خالد ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ 1999 میں جب فوجی حکومت پاکستان میں آئی اور تمام اداروں کو ٹیک اوور کرلیا گیا تھا تب بھی انہوں نے آزاد کشمیر کے معاملات میں مداخلت نہیں کی اور کشمیریوں کو اپنے معاملات چلانے دیئے کیونکہ ہم سب حکومتی اور اپوزیشن کے لوگ متفق تھے کہ ہم کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن افسوس کہ آج ان ہاؤس تبدیلی کرنے کے لیئے کشمیری پارلیمنٹرینز خود تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

آزاد کشمیر کی حکومت کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے سردار خالد ابراہیم خان نے کہا کہ جب امیدواران انتخابات لڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ کافی ایسے وعدے کرتے ہیں جن کا ان کو یقین ہوتا ہے کہ کل پورے نہیں کرسکیں گے لیکن ووٹ لینے کے لیئے وہ وعدے کرنے میں کافی آگے چلے جاتے ہیں۔ یہی کچھ حال مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی حکومت کا بھی ہے۔ انہوں نے آزاد کشمیر کی حکومت کے دو اقدامات کو سراہا اور کہا کہ اس حکومت نے دو کام قابل داد کیئے ہیں ایک کابینہ کے سائز کو کافی کنٹرول کیئے رکھا اور دوسرا NTS کے حوالے سے انکی پالیسی قابل داد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دو اقدامات کے علاوہ جو گڈ گورننس کے دعوے حکومت کرتی ہے وہ کہیں نظر نہیں آتے۔

سردار خالد ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ سے کہا ہے کہ NTS کا فارمولہ سب شعبوں پر لاگو ہونا چاہیئے۔ سیاست میں بھی حصہ لینے کے لیئے ہر آدمی کو کوئی بنیادی قابلیت ثابت کرنی چاہیئے۔ جس شخص میں بنیادی قابلیت نہیں ہے وہ کبھی بھی ڈیلیور نہیں کرسکتا۔

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت کے لیئے سب سے بڑا چیلینج سروائول کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حکومت بچانے کے لیئے نمائندے اصول اور نظریات کو ایک طرف رکھ کر اور کام شروع کر دیتے ہیں۔ سردار خالد ابراہیم خان نے کہا کہ حکومت کا سروائول ضروری ہے اور اگر حکومت اصولوں اور نظریات کو مدنظر رکھ کر سروائول کی جنگ لڑے گی اور جمہوری فیصلے کرے گی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن اگر حکومت بنیادی اصولوں سے ہی ہٹ جائے گی اور جمہوریت کے خلاف فیصلے کرے گی تو ہمارے جیسے لوگ بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔

ریاستی اور غیر ریاستی جماعتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سردار خالد ابراہیم خان نے کہا کہ میں اس تفریق کا قائل نہیں ہوں کیونکہ نظریہ ریاستی یا غیر ریاستی نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارا ایک کشمیری تشخص ہے جس کا خیال ہمیں رکھنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں خود کو پہلے پاکستانی اور بعد میں کشمیری کہتا ہوں۔ لیکن جب تک مسلئہ کشمیر حق خود ارادیت کے تحت حل نہیں ہوتا اس وقت تک ہمیں اپنے کشمیری تشخص پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیئے اور ہر ممکن حد تک اسکی حفاظت کرنی چاہیئے۔