اہم شخصیت جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی رکنیت سے مستعفیٰ

نیوزڈیسک|اسلام آباد
جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے ریاستی سیاست میں ایک نیا بھونچال کھڑا کردیا۔ وسطی باغ میں تنویر الیاس چغتائی کے حق میں سابق امیر جماعت اسلامی رشید ترابی کے دستبردار ہونے کے بعد سے اب تک جماعت اسلامی متعدد مشکلات اور نقصانات سے دوبار ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا پر جماعتی اور غیر جماعتی لوگوں میں بے یقینی پائی جارہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا ہے کہ وسطی باغ میں کیا جانے والا فیصلہ وہاں کے امیدوار کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا جس سے جماعت کا کوئی تعلق نہ ہے جبکہ دوسری طرف رشید ترابی کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ تمام فیصلے جماعت کی مرکزی کابینہ کے ساتھ مشاورت کے بعد کیئے گئے ہیں اور مرکزی کابینہ کارکنان کی تنقید کے بعد اب اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر نے بڑھتی ہوئی بے یقینی اور افراتفری کو مدنظر رکھتے ہوئے ذمہ داران کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور اس اجلاس میں عبدالرشید ترابی کی رکنیت بھی معطل کردی۔

جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے وسطی باغ کے فیصلے سے جماعت کو ایک اور نقصان اٹھانا پڑا۔ تین ماہ قبل جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے سدوزئی قبیلہ کے چیف ڈاکٹر سردار محمد کلیم خان اور انکے فرزند سردار محمد عبید خان ایڈووکیٹ نے وسطی باغ میں تنویر الیاس چغتائی کے حق میں دستبرداری کے فیصلے پر سخت ترین رد عمل کا اظہار کیا اور جماعتی رکنیت کو خیر آباد کہہ دیا۔ نمائندہ کے مطابق ڈاکٹر کلیم خان کا کہنا تھا کہ تنویر چغتائی کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ ترابی صاحب کی بدترین سیاسی شکست ہے، ایک سابق امیر اور سینئر ممبر پارلیمان کا ایک غیر سیاسی اور اخلاقیات سے نابلد شخص کے سامنے گھٹنے ٹیکنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے سابق سربراہ کا اس قدر چھوٹی حرکت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ نمائندہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر کلیم خان نے کہا کہ ہم نے اسلامی احیاء اور سیاسی اقدار کی امین طرز فکر کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن ترابی صاحب کا یہ عمل جماعت کے عملی کردار کی نفی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے غیر معروف فیصلے کو قبیلائی غیرت کے منہ پر ایک طمانچہ سمجھتے ہیں، جماعت کے فیصلہ ساز اگر اس قدر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔

ڈاکٹر کلیم خان کا کہنا تھا کہ ہم نے جماعت کے امیر کی شرافت، باہم رواداری اور فلاح عامہ کی درویشانہ جدوجہد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انکی معاونت کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور مستقبل کے سیاسی ورکنگ ریلیشن کے کچھ ضوابط کار ہنوز ابھی طے ہونے باقی تھے کہ باغ میں اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لی گئ جس نے سیاست کا پہلا قدم ہی قومی ہیروز پر طعن و تشنیع سے شروع کیا۔ جس شخص نے پیسے دے کر گوسٹ رائٹرز کے ذریعے سدھن گوریلہ لیڈر شمس خان کے تاریخی کردار کو مسخ کرنے میں سرمایہ کاری کی جس کے مکروہ عزائم کسی صورت قابل قبول نہیں۔
ڈاکٹر سردار محمد کلیم خان کا کہنا تھا کہ کابل سے کشمیر تک بسنے والے ایک خود دار قبیلے کا ذمہ دار ہونے کے ناطے میرے لیئے اس جماعت کے لیئے کام کرنا ممکن نہیں ہوگا، اس لیئے امیر جماعت سے پیشگی معذرت کے ساتھ میں جماعت اسلامی کی رکنیت جو بمشکل تمام تین ماہ قبل مجھے دی گئ تھی سے دستبردار ہوتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات میں کوئی متحرک کردار ادا کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے سردست اپنی غیرجانبدارانہ قبیلائی سرگرمیوں کو جاری رکھوں گا۔ میں سمجھتا کہ ہوں میرے اس فیصلے سے جماعت کے سیاسی سفر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ میں پیش ازیں جماعتی فورم پر کبھی متحرک ہی نہیں رہا، ڈاکٹر خالد محمود، سردار اعجاز افضل، بیرسٹر اسحاق بلوچ اور دیگر دوستوں کی دل آزاری اگر ہوئی تو معذرت خواہ ہوں۔ سدھنوتی اور ہٹیاں بالا میں جماعتی امیدوار اگر برقرار رہے تو ذاتی حیثیت میں ان کے ساتھ کھڑا رہنا اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔