سردار خالد ابراہیم توہین عدالت کیس، سدوزئی قبیلہ کا سخت ردِعمل

نیوزڈیسک | راولپنڈی

آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم ضیاء کی جانب سے غیر آئینی و غیر قانونی ازخود نوٹس لے کر سردار خالد ابراہیم پر توہینِ عدالت کا مقدمہ چلانے پر آزاد کشمیر بھر میں شدید احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں۔

عدالتی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات سے نمٹنے کے لیئے سدوزئی لوئیہ جرگہ کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں ہوا۔ جس میں مختلف سیاسی سماجی اور مذہبی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سدوزئی برادری کے سرکردہ عمائدین اور نمائندگان پریس کی ملاقات بھی ہوئی۔

جرگہ عمائدین نے یک زبان ہوکر سردار خالد ابراہیم خان کی حمایت کا اعلان کیا اور سپریم کورٹ آزاد کشمیر میں وکلاء کی جانب سے توہینِ عدالت کی درخواستیں دائر کرنے کی شدید مذمت کی۔ جرگہ کے شرکاء نے وکلاء کے ذریعے دائر کی جانے والی درخواستوں کو چیف جسٹس ابراہیم ضیاء کی سازش قرار دیا۔

سدوزئی جرگہ کے اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ جب وزیراعظم فاروق حیدر نے فلور آف دی ہاوس پر واضح الفاظ میں الزام لگایا تھا کی دو دو کروڑ روپے رشوت لے کر جج بھرتی کئے گئے تو اس پر کوئی سوو موٹو ہوا نہ توہین عدالت لگی لیکن سردار خالد ابراہیم نے ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کے غیر موروثی اور غیر آئنی طریقہ کار پر قانونی اعتراض کیا تو ان کو گرفتار کرنے کے وارنٹ جاری کردیئے گئے۔ چیف جسٹس آزاد کشمیر کے اس اقدام کو سدوزئی قبیلہ کے تمام عمائدین نے سدوزئی قبیلہ کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔

سدوزئی قبیلہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ قطع نظر اس سے کے سدوزئی کس سیاسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ سدوزئی قبیلہ نے بانی آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں لاکھوں جانوں کا خون دے کر یہ ریاست آزاد کرائی ہے۔ مزید کہا گیا کہ سردار بہادر علی خان نے ریاست کے سب باسیوں کو جو کہ ڈوگرہ کے باجگزار تھے حق ملکیت لے کر دیا۔

سدوزئی قبیلہ کے چیف ڈاکٹر سردار محمد کلیم خان نے کہا کہ فرزند بانی آزاد کشمیر ریاست میں حکمرانوں کے قانون کی بجائے قانون کی حکمرانی کی آواز اٹھائی تو اسے گرفتار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست میں افراتفری پھیلانے کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ الحاق پاکستان کے نظریہ کے بے خوف سپاہی سدوزئی قبیلے کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے جس کے بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔

سدوزئی چیف سردار محمد کلیم خان کا کہنا تھا کہ خالد ابراہیم کی گرفتاری کا حکم غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ اجلاس میں قبیلہ کے دیگر افراد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر سردار خالد ابراہیم خان کو گرفتار کرنے کی جسارت کی گئی تو حکومتی ایوانوں کا گھیراو کرینگے اور ریاست کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرینگے۔

سدوزئی قبیلہ کے چیف ڈاکٹر سردار محمد کلیم خان نے کہا کہ قومی سلامتی کے ذمہ داران کو اس بات کی کھوج لگانا ہوگی کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جو یہ غیر قانونی اور غیر آئینی عدالتی اقدام کہ ذریعے ریاست کے پر امن ماحول میں انتشار پھیلا کر حکومت پاکستان کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطع پر مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سدوزئی قبیلہ امن پسند قبیلہ ہے لیکن اگر ہمیں دیوار کے ساتھ لگایا گیا تو ہم اپنی عزت و بقاء کی جنگ ہر محاذ پر لڑیں گے۔

سدوزئی ٹرائبل کونسل پاکستان کے چیف ڈاکٹر سردار محمد کلیم خان کی پلندری، منگ، پتن شیرخان، ٹالیان، سہنسہ اور دیگر علاقوں کی سدوزئی ٹرائبل کونسل کی مقامی رابطہ کمیٹیوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جہاں تمام قبیلائی عمائدین نے سدوزئی قبیلہ کے چیف کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے ان کی کال پر ہر قسم کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

اطلاعات کے مطابق کل سدوزئی ٹرائبل کونسل کی مرکزی کمیٹی کی ملاقات ہے جس میں چاروں صوبوں کے سدوزئی ٹرائبل چیف کی مشاورت کے بعد حتمی لائحہ عمل کا اعلان کرنے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق سدوزئی ٹرائبل کونسل کی مرکزی کمیٹی اپنے اجلاس میں ایوان ہائے قانون اور اقتدار کے سامنے مظاہرہ اور ریاست میں داخل ہونے والے تمام کلیدی راستوں کو بلاک کرنے کے آپشنز پر غور کر رہی ہے۔


تنازعہ کا پس منظر

مئی 2018 میں آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں پانچھ نئے ججز کی تقرریاں کی گئیں۔ جس پر وکلاء اور سیاسی قائدین نے احتجاج کیا کہ یہ تقرریاں میرٹ کے بجائے سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں اور ان تقرریوں میں آئینی طریقہ کار مکمل نظرانداز کیا گیا ہے جسکی وجہ سے یہ تقرریاں غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں۔ تقرریوں کے خلاف متعدد وکلاء نے آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں رٹس بھی دائر کر رکھی ہیں۔

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم خان نے قانون ساز اسمبلی کے فلور پر ان تقرریوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ سردار خالد ابراہیم خان کی قانون ساز اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقریر پر چیف جسٹس آزاد کشمیر ابراہیم ضیاء نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے سردار خالد ابراہیم خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 کی رو سے سپریم کورٹ آزاد کشمیر صرف ایک اپیلٹ کورٹ ہے جو صرف اپیل کی سماعت کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے پاس سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرح ازخود نوٹس لینے کا کوئی آئینی اختیار  نہ ہے۔

چیف جسٹس آزاد کشمیر کی جانب سے غیر آئینی و غیر قانونی ازخود نوٹس لینے پر سردار خالد ابراہیم خان نے اعلان کیا کہ وہ ایسے غیر آئینی و غیر قانونی مقدمہ میں پیش نہ ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسمبلی فلور پر کی گئی تقریر ہے جو ججز کی غیر آئینی تقرریوں پر کی گئی تھی۔ اس لیئے وہ کسی بھی قسم کے غیر قانونی اور غیر آئینی نوٹس کا جواب نہیں دیں گے۔ 

آئینی ماہرین نے بھی چیف جسٹس آزاد کشمیر کے ازخود نوٹس کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا۔ اسی اثناء میں چیف جسٹس آزاد کشمیر کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے چند وکلاء نے سپریم کورٹ آزاد کشمیر میں سردار خالد ابراہیم خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دائر کردیئں۔ جس پر معاملات اور زیادہ بگاڑ کی طرف چلے گئے۔ کیونکہ سپریم کورٹ آزاد کشمیر ایک اپیلٹ کورٹ ہے جس میں کوئی بھی شخص ڈائریکٹ پٹیشن دائر نہیں کرسکتا۔ آزاد کشمیر کی عوام میں ان درخواستوں کے پیچھے چیف جسٹس آزاد کشمیر کا ہاتھ ہونے کا خدشہ تھا ھو بعدازاں یقین میں بدل گیا۔

اسی مہینے سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے سردار خالد ابراہیم خان کی حاضری عدالت میں یقینی بنانے کے لیئے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے جس پر سدوزئی قبیلے کی ٹرائبل کونسل نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا اور آزاد کشمیر میں سدوزئی قبیلہ کے بزرگ کو قبائلی بنیادوں پر غیرآئینی اور غیر قانونی طور پر جاری کیئے جانے والے وارنٹس کی بھرپور مذمت کی اور سخت ردعمل دینے کا اعلان کیا۔