نیوزڈیسک | راولاکوٹ
آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ممبر، جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ، سدوزئی قبیلہ کے بزرگ اور بانیِ کشمیر ، غازیِ ملت سردار محمد ابراہیم خان صاحب کے صاحبزادے، والیِ کشمیر سردار خالد ابراہیم خان برین ہیمریج کے باعث مورخہ 5 نومبر 2018 کو انتقال کرگئے.
والیِ کشمیر سردار خالد ابراہیم خان صاحب ایک با اصول، با کردار، دیانتدار، بہادر، جراتمند، غیرتمند، بے باک، خداترس، سادہ لوح، غریب پرور، باعزت، باوقار اور ایماندار شخص تھے. سردار صاحب 5 نومبر 1947 کو پیدا ہوئے اور اپنی 71 ویں سالگرہ پر سپردِ خاک کیئے گئے. والیِ کشمیر کا نمازِ جنازہ راولاکوٹ صابر شہید سٹیڈیم میں ادا کیا گیا جس میں پانچھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی. صابر شہید سٹیڈیم میں جب جگہ پُر ہوگئی تو شرکاء نے ارد گرد کی سڑکوں و عمارتوں کے اندر اور اوپر چڑھ کر نمازِ جنازہ کی ادایئگی کی. والیِ کشمیر سردار خالد ابراہیم خان کے جنازے کو متحدہ کشمیر کا دوسرا اور آزاد کشمیر کا سب سے بڑا جنازہ قرار دیا جا رہا ہے.
والیِ کشمیر سردار خالد ابراہیم خان صاحب کے پاس آج تک کوئی بھی حکومتی عہدہ نہیں رہا. اقتدار نے کئی بار انکے دروازے پر دستک دی لیکن انہوں نے آج تک اس لیئے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اقتدار میں انکو اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا. عوام میں ان کی مقبولیت کا راز بھی یہی تھا کہ وہ اپنے فائدے سے پہلے قومی فائدے سوچتے تھے. سردار صاحب ہمیشہ قانون اور میرٹ کی بالا دستی کے لیئے جنگ لڑتے رہے. انکی آخری جنگ بھی قانون کی بالادستی کی جنگ تھی. جب تمام تر سیاستدان اپنی اپنی سیاست اور کرسیاں بچانے میں مصروف تھے، والیِ کشمیر، سردار خالد ابراہیم خان صاحب وہ واحد شخص تھے جنہوں نے آزاد جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ میں پانچھ نئے ججز کی سیاسی اور غیرقانونی بھرتیوں کے خلاف قانون ساز اسمبلی میں آواز بلند کی.
والیِ کشمیر، سردار خالد ابراہیم خان صاحب کی گرجتی آواز اور بے داغ کردار سے وہ تمام لوگ خوفزدہ تھے جنہوں نے ججز کی غیر قانونی تقرریوں میں اپنا اپنا کردار ادا کیا تھا. لہزا ایک جامع پلان تیار کیا گیا کہ سردار خالد ابراہیم خان صاحب کو کسی طرح اسمبلی سے باہر نکالا جائے اور انکی آواز کو قانون کی لاٹھی سے دبایا جائے. لیکن وہ تمام عناصر بھول گئے تھے کہ سردار صاحب کی رگوں میں ایک ایسے شخص کا خون دوڑ رہا تھا جس نے مہاراجہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا کہ میرے لوگوں کو زندہ رہنے دو. سردار صاحب بھی آزاد کشمیر میں حکومت اور حکومتی ٹاوٹس کی جانب سے کی جانے والی ناانصافیوں کے سامنے ایک چٹان کی مانند کھڑے تھے.سردار صاحب کے مقابلے میں کوئی مہاراجہ نہیں تھا، بلکہ ایک صدر، ایک وزیرِاعظم، دو سپریم کورٹ کے جج، پانچھ ہائی کورٹ کے جج، ایک سپریم کورٹ کا رجسٹرار اور چند عدالتی ٹاوٹس تھے. ان تمام کے پاس اختیار اور اقتدار دونوں تھے. لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ سردار صاحب کا کچھ نہیں بگاڑ سکے، کیونکہ سردار صاحب کے ساتھ انکا قبیلہ اور کشمیری عوام کھڑے تھے جنہوں نے ایک واضح پیغام دیا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے غیرقانونی اور غیر آئینی عمل کو تسلیم نہیں کریں گے.
والیِ کشمیر سردار خالد ابراہیم خان صاحب کا انتقال جہاں کشمیری عوام کو ایک بدعنوان حکومت اور قانونی نظام کے سامنے تنہا چھوڑ گیا ہے وہیں انکی شروع کی گئی تحریک نے آزاد کشمیر کی عوام میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا نیا عزم پیدا کردیا ہے. آنے والے دنوں میں آزاد کشمیر کی سیاست، حکومت اور عدالتی نظام میں ایک بہت بڑا طوفان آنے کا اندیشہ ہے. روزنامہ کشمیر پیج کی انتظامیہ دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ والیِ کشمیر، سردار خالد ابراہیم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے تمام پسمانداگان کو صبرِ جمیل عطا کرے. آمین.