بحران اور نوٹس

موجودہ وزیراعظم پاکستان نے ملک بھر میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ ادارے کو مئی سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا حکم جاری کردیا۔ میاں شہباز شریف کے اس عمل کو انکے رفقاء اور حمایتی شخصیات کی جانب سے ایک اچھے اقدام کے طور پر سراہا گیا۔ جبکہ انکے مخالفین کی جانب سے اسے صرف شوبازی کہا جارہا ہے۔ اصل سوالات جنہیں نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہیں کہ اچانک ایسا کونسا بحران آگیا کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی؟ کیا اس بحران کی کوئی خاص وجہ ہے؟ اور اسکا کیا کوئی حل ہے؟

بنیادی سہولتیں اور ضروریات فراہم کرنا کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکومت بغیر کسی مشکل کہ ان بنیادی سہولیات کو فراہم کرتی ہے تو وہ ایک کامیاب حکومت تصور کی جاتی گی۔ جبکہ اس کے برعکس اگر حکومت اس عمل میں ناکام رہتی ہے تو اسے عوامی غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام حالات میں ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے تاکہ وہ کامیاب حکومت کے طور پر سامنے آئے جس سے عوام خوش ہوں اور حکومت مستحکم ہو۔ بعض اوقات وسائل کی کمی کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن کبھی کبھار وسائل ہونے کے باوجود بھی حکومت عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھتی ہے۔

حکومت کی جانب سے دانستہ طور پر عوام کو بنیادی سہولیات اور ضروریات فراہم نہ کرنے کا ایک پورا فلسفہ پایا جاتا ہے جس کے ذریعہ غیر مقبول حکومتیں عوام کو قابو میں رکھتی ہے۔ اس فلسفہ کے تحت حکومت لوگوں کی بنیادی سہولیات اور ضروریات، جیسے بجلی، گیس، اشیاء خوردونوش وغیرہ، کی فراہمی روک کر ایک مصنوعی بحران پیدا کر دیتی ہے۔ پھر حکومت تھوڑا تھوڑا کر کے ان سہولیات اور ضروریات کو فراہم کرتی ہے۔ اس سب کاروائی کے دوران حکومتی نمائندگان کی جانب سے عوام میں ملکی حالات کی مزید بدحالی کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ جن کا مقصد عوام کو صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ ملک کو سخت ترین حالات کا سامنا ہے، وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ اس طرح سے عوام پر ذہنی اور معاشی دباؤ ڈال کر ملکی معاشی حالات کے متعلق غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی جاتی ہے۔ عوام بدترین ملکی صورتحال کا خاکہ ذہن میں بنا لیتی ہے اور پھر ان فرضی مشکل حالات سے نمٹنے کے لیئے سخت ترین معاشی مشقت میں لگ جاتی ہے۔ پھر اس گھبرائی ہوئی عوام پر حکومت ٹیکس بڑھاتی جاتی ہے اور چیزوں کو مہنگا کرتی جاتی ہے۔ اور یہ گھبرائی ہوئی عوام ان مشکل حالات کا سامنا کرتی جاتی ہے۔ ہر بندہ اپنی کشمکش میں لگ جاتا ہے کیونکہ اس کے سامنے اپنے گھریلو معاملات کو سنبھالنا سب سے اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس طرح سے کوئی بھی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی تحریک یا بغاوت چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور یوں حکومت پوری طرح سے لوگوں کی معیشت کے ذریعے ان کو قابو کر لیتی ہے۔
پاکستان میں ہر حکومت یہ فلسفہ اپناتی ہے۔ موجودہ پاکستانی حکومت بھی اسی فلسفہ پر چل رہی ہے۔ یہ بجلی بحران بھی بدقسمتی سے عوام کو قابو کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لیکن چونکہ گزشتہ دور حکومت میں بجلی کا کوئی بحران موجود نہ تھا اس لیئے اس بار اس فلسفہ کی کامیابی مشکل نظر آرہی ہے۔ یہ فلسفہ صرف تب ہی کام کرتا ہے جب پانچھ سالہ حکومت کے پہلے دن سے ہی بحران پیدا کردیا جائے۔ لیکن اب چونکہ ایسی صورتحال نہیں ہے اس لیئے موجودہ حکومت اب بحران پیدا کر کے صرف عوام کو مشتعل ہی کرے گی، قابو نہیں۔ حکومت کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیئے کہ عوام کو حکومتی فلسفہ سمجھ آگیا ہے۔