حضرت داود طائی رحمتہ اللہ علیہ کے دور کی ایک بیوہ عورت کا ایمان افروز واقعہ

ایک بزرگ ولی اللہ جناب داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ کے شہر میں ایک عورت بیوہ ہوگئی۔ خاوند کی وفات کے بعد اس پر مشکلات اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اس کی کل جمع پونجی صرف تین درہم تھی اور نابالغ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کا بوجھ اس کے کندھوں پر۔ اس نے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور بازار سے جا کر ان تین درہم کی اون خرید لائی۔ کچھ چیزیں بنا کر فعوخت کیں تو پانچ درہم وصول ہوئے۔ دو درہم کا کھانا پینا خریدا اور تین درہم کی پھر سے اون لے آئی۔ اسی طرح سے اس کا گزر بسر ہونے لگا۔

ایک دن وہ بازار سے کھانے پینے کا سامان اور اون لیکر گھر واپس آئی اور اون کو رکھ کر بچوں کو کھانا دینے لگی کہ اتنے میں ایک پرندہ کہیں اے اڑتا ہوا آیا اور اون اٹھا کر لے گیا۔ عورت کے لیئے اپنی کل کائنات کا یوں لٹ جانا قیامت سے کم نہ تھا۔ مستقبل کی ہولناکیاں اور مصیبتیں اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔

دوسرے دن وہ سیدھا جناب داود طائی کے گھر جا پہنچی اور ان کو اپنا قصہ سنا کر پوچھنے لگی کہ کیا ہمارا رب رحم دل ہے یہ ظالم؟ جناب داود طائی عورت کی درد بھری کہانی سن کر پریشانی کے عالم میں اسے تسلی دے ہی رہے تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے جا کر دیکھا تو دس اجنبی آدمی کھڑت ہوئے تھے۔ آپ نے ان سے ان کے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا،

حضرت ہم سمندر میں سفر کر رہے تھے کہ ہماری کشتی میں ایک سوراخ ہوگیا۔ پانی اس تیزی سے بھت رہا تھا کہ ہمیں ہماری موت صاف نظر آرہی تھی۔ مصینت کی اس گھڑی میں، ہم میں سے ہر شخص نے عہد کیا کہ اگر اللہ پاک ہماری جان بچا لیں تو ہم میں سے ہر آدمی ایک ایک ہزار درہم صدقہ دے گا۔ ابھی ہم یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ایک پرندے نے کہیں سےہماری کشتی میں ایک اون کا گولا لا کر پھینک دیا۔ جسے ہم نے جلدی سے سوراخ میں پھنسا دیا۔ کشتی کو پانی ست خالی کیا اور سیدھے یہاں نزدیک ترین ساحل پر آپہنچے۔ ہم چونکہ یہاں اجنبی ہیں اس لیئے لوگوں سے کسی معتبر آدمی کا نام پوچھا تو انہوں نے آپ کے پاس بھیج دیا یہ لیجیئے دس ہزار درہم اور ہماری طرف سے مستحقین کو ڈھونڈ کر دے دیجیئے گا۔

داود طائی رحمتہ اللہ علیہ اللہ رب العزت کی اس حکمت پر حیران و پریشان ہوئے۔ انہوں نے دس ہزار درہم لیئے اور اندر آکے سیدھا اس بیوہ عورت کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نھ پھر اس بیوہ عورت سے کہا،

اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ کیا تمہارا رب ظلم ہے یا رحم دل؟

بیوہ عورت حضرت داود طائی رحمتہ اللہ علیہ کے چہرے کو دیکھتی رہ گئی اور اللہ تعالی کی شان کریمی دیکھ کر اسکی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے۔

معزز قارئین اس ایمان افروز واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی تدبیریں ہماری سوچ سے کہیں بہتر ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔