رپورٹ | کشمیر اسمبلی میں عدم اعتماد لائے جانے کا امکان

رپورٹ | اسلام آباد

آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک روایت برقرار رہی ہے کہ جب بھی پاکستان میں نئی حکومت آتی ہے تو آزاد کشمیر میں بھی حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے. موجودہ آزاد کشمیر کی حکومت بھی انہی خطرات سے ایک بار پھر گزر رہی ہے. وزیرِاعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان صاحب کی سیاست تحریک عدمِ اعتماد کے زیرِ سایہ پروان چڑھی تھی. وہ23 اکتوبر 2009 میں پہلی بار وزیرِاعظم تب بنے جب سردار یعقوب خان صاحب کیخلاف کشمیر قانون ساز اسمبلی میں تحریک عدمِ اعتماد پیش کی گئی. لیکن وہ وزیرِاعظم کے منسب پر زیادہ دیر تک فائر نہ رہ سکے اور بلآخر 29 جولائی 2010 میں ان کیخلاف کشمیر قانون ساز اسمبلی میں تحریک عدمِ اعتماد پیش کی گئی جس کے بعد سردار عتیق احمد خان صاحب وزیرِاعظم آزاد کشمیر منتخب ہوئے. راجہ فاروق حیدر خان صاحب کی قسمت 21 جولائی 2016 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک بار پھر بدلی اور وہ موجودہ حکومت کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے. راجہ فاروق حیدر خان صاحب نے حکومت آزاد کشمیر کے سربراہ کی حیثیت سے تقریباََ دو سال انتہائی بے باکی اور غیرضروری جرات مندی کا مظاہرہ کرنے میں گزارے. ان کے تعلقات پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کیساتھ قابلِ رشک تھے اور اگر سادہ الفاظ میں کہا جائے تو وہ انٹچ ایبل تھے.

وفاقی حکومت کے ساتھ انکے مضبوط تعلقات ان کی سیاسی بہادری کا ایک اہم راز تھے. یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ہر مخالف پر چڑھ دوڑتے، کبھی میڈیا بیانات کے تحت تو کبھی اداروں اور قانون کے ذریعے. ان کا یہ روائیہ صرف اپنے مخالفین کیساتھ ہی نہیں بلکہ اپنی جماعت کے سینیئر لوگوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا. جس کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی جماعت میں خاص مقبولیت حاصل نہیں رکھتے. لیکن آخرکار راجہ فاروق حیدر خان صاحب کی سیاسی اڑان کو بھی زوال کا سامنا کرنا پڑ گیا جب پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت لڑکھڑانے لگی اور میاں محمد نواز شریف کا سیاسی وزن پاکستان میں ہلکہ ہونے لگا. پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کا اقتدار جانے کا مطلب آزاد کشمیر میں انکے حامیوں کی مشکلات کا آغاز تھا. لیکن راجہ فاروق حیدر خان صاحب کو اس بات کا اندازہ تھا کہ سب سے زیادہ مسلئہ انکے لیئے ہوگا. اسی لیئے ہم نے دیکھا کہ کسطرح راجہ فاروق حیدر خان صاحب نے اپنے عہدے، منصب حتیٰ کہ اپنی عزت کا بھی خیال نہیں کیا اور میاں محمد نواز شریف کی حمایت میں ہر حد پار گئے. کیا یہ دوستی تھی، سیاست تھی یا محظ جزبات کا فیصلہ؟ اس کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے.

وزیرِاعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان صاحب نے وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان صاحب کو ہمیشہ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے. کبھی انکی ذاتی زندگی پر تو کبھی سیاست پر اپنے خیالات کا اظہار وہ فراخ دلی سے کرتے رہے ہیں. نظریاتی اختلافات تو اس حد تک رہے ہیں کہ انہوں نے وزیرِاعظم عمران خان صاحب کے نئے پاکستان کے نظریے کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ عمران خان صاحب کے نئے پاکستان کے ساتھ الحاقِ کشمیر پر بھی متنازعہ بیان دے دیا جسکی بعد میں انہوں نے کافی تفصیلی وضاحت بھی دی. لیکن عمران خان صاحب کے نظریے پر انکا موقف برقرار رہا.

راجہ فاروق حیدر خان صاحب صرف عمران خان پر ہی نہیں بلکہ پاکستانی عدلیہ پر بھی کافی طویل تجزیہ دے چکے ہیں. انہوں نے متعدد بار چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب ثاقب نثار صاحب کو بھی للکارا ہے. کبھی ان سے کہتے ہیں کہ وہ راجہ صاحب پر توہینِ عدالت لگائیں تو کبھی کوئی اور فریاد کر دیتے ہیں. لیکن جب صحافی راجہ صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ پر توہینِ عدالت لگا دی گئی تو آپ کیا کریں گے تو وہ بہت معصومانہ انداز میں کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان کا قانون مجھ پر لاگو نہیں ہوتا. ناجانے انکے کس مشیر نے ان کو یہ کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستانی قانون سے بالاتر ہیں؟ یا شاید یہ ان کی اپنی سوچ ہے کہ جیسے وہ آزاد کشمیر کی عدالتوں اور قوانین کو اپنے اشاروں پر تبدیل کرسکتے ہیں ویسے ہی پاکستان میں بھی کرسکتے ہیں. ایسا اندازِ حکومت ہم نے پنجاب میں دیکھا ہے جس سے راجہ فاروق حیدر خان صاحب کافی متاثر نظر آتے ہیں.

پاکستان میں ایک صحافی نے چند مہینوں پہلے راجہ فاروق حیدر خان صاحب سے آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں پانچ نئے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے جب پوچھا کہ پانچ میں سے چار لیگی کارکنان کا کس میرٹ کے تحت ہائی کورٹ میں نوٹیفیکیشن کیا گیا ہے تو راجہ صاحب نے صحافی پر نہ صرف غصہ کیا بلکہ اسے یہ تک کہہ دیا کہ تم توہینِ عدالت نہ کرو، تم رہتے اسلام آباد میں ہو نہیں تو میں تمہیں ابھی اندر کرا دیتا. میں ہائی کورٹ کو کہوں گا کہ تمہیں کوہالہ کراس کرنے پر گرفتار کرے. فالتو سوال مت پوچھو مجھ سے اور عدالتوں کیساتھ مزاق مت کرو.

راجہ فاروق حیدر خان صاحب کے اس پُر اعتماد بیان سے ایک بات تو واضح نظر آتی ہے کہ ان کا اثر و رسوخ عدالتوں میں پایا جاتا ہے. مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے ایک سینیئر ممبر کے مطابق راجہ فاروق حیدر خان صاحب کو آزاد کشمیر کے ایک بڑے سیاسی نام کے اسمبلی فلور پر ججز تقرری کے معاملے کو اٹھانے پر شدید اعتراض اور غصہ تھا. انہوں نے ان رکن پارلیمنٹ کو ایک مثال بنانے کی ٹھانی اور اس طرح راجہ صاحب کی ہدایت پر ان رکن قانون ساز اسمبلی پر توہینِ عدالت کا مقدمہ درج کیا گیا. جب یہ بات قانونی ماہرین نے بتائی کے آزاد کشمیر کی عدلیہ کے پاس از خود نوٹس لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے تب اپنے کچھ قریبی وکلاء کیطرف سے درخواستیں بھی دائر کرا دئیں تاکہ ہر حال میں ان رکنِ اسمبلی کو عبرت کا نشان بنایا جاسکے. بہر حال ان رکن اسمبلی کی قانونی ٹیم پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کا انتظار کر رہی تھی جس کے بعد انہوں نے وفاقی حکومت کے پاس چیف جسٹس آزاد کشمیر کیخلاف تیار کردہ ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے. اطلاعت کی مطابق آنے والے دن آزاد کشمیر حکومت اور عدلیہ کے لیئے انتہائی مشکل ہوں گے جس کا سہرا صرف راجہ فاروق حیدر خان صاحب کے سر پر جاتا ہے.

پاکستان سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا صفایا ہوتے ہی وزیرِاعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان صاحب کی شخصیت اور طبیعت میں بھی واضح فرق نظر آنے لگا. انکی گفتگو میں تھوڑی نرمی اور روائیے میں کافی تبدیلی نظر آئی. گزشتہ دنوں انہوں نے پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ایک احساسات سے بھرا ہوا بیان دیا. جس میں انہوں نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہشات کا اظہار کیااور پاک فوج کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا. ان کا بیان ایک سربراہ کا بیان کم اور صلح نامہ زیادہ دکھائی دیتا ہے. اس بیان کو سیاسی مبصرین نے ایک مفاہمتی بیان قرار دیا ہے. ذرائع کے مطابق پاکستان میں عمران خان صاحب کے وزیرِاعظم منتخب ہونے کے بعد آزاد کشمیر میں موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیئے سیاسی جماعتیں اپنی تیاریاں کر رہی ہیں. راجہ فاروق حیدر خان صاحب کو پہلے کی طرح اس دفعہ بھی اپنی ہی جماعت کے ممبران سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے. سابق صدر آزاد کشمیر جناب سکندر حیات خان صاحب نے پہلے ہی اپنا موقف دے دیا ہے کہ وہ فاروق حیدر صاحب کیساتھ مزید نہیں چل سکتے. سابق وزیراعظم جناب عتیق احمد خان صاحب پاکستان میں پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں.

وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین واضح سیاسی اختلافات سامنے آچکے ہیں جن کے اثرات آزاد کشمیر تک محسوس کیئے جارہے ہیں. آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے پاس موجود اکثریت ذاتی مفاد کے نظریے پر چلتی ہےاور کسی بھی ہارنے والی پارٹی کے ساتھ خود کو زیادہ دیر تک جوڑے نہیں رکھتی. ان صورتحال میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری صاحب کا راستہ روکنے والا کوئی بھی نظر نہیں آتا. بلکہ ان کو راستہ دکھانے والے زیادہ موجود ہیں.

راجہ فاروق حیدر صاحب ممبران میں وزارتیں بانٹ کر بھی وفاداریاں خریدنے میں ناکام نظر آرہے ہیں. ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے متعدد ممبران قانون ساز اسمبلی تحریکِ انصاف (آزاد کشمیر) کی اعلیٰ قیادت سے رابطے میں ہیں جن کے مابین معاملات کافی حد تک طے پائے جاچکے ہیں اور موصول ہونے والی اطلاعت کے مطابق ماہِ نومبر تک راجہ فاروق حیدر خان صاحب کیخلاف عدمِ اعتماد پیش کردیا جائے گا. ہمارے پختہ اندازے کیمطابق ماہِ اکتوبر راجہ فاروق حیدر خان صاحب کا آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں بطور وزیرِاعظم آخری مہینہ ہوگا. لیکن رپورٹ کے مطابق اس بار فاروق حیدر خان صاحب اسمبلی میں عدمِ اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے، اسمبلی توڑنے پر غور کر رہے ہیں. ان کے گزشتہ دو سال کے روائیے کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ یہ قدم اٹھانے سے پہلے پلکیں بھی نہیں جھپکیں گے.